Read this in: English
کیا آپ کو کبھی ایسا لگا ہے کہ ایک زبان کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے؟ میں آپ کو اپنے تجربے سے بتا سکتی ہوں کہ مجھے ایسا کئی بار جانے انجانے میں کرنا پڑا ہے۔ جب میں نے یہ بلاگ بھی لکھنا شروع کیا تھا تو یہ سوچا تھا کہ اپنے اردو کے تجربے کے بارے میں زیادہ بات نہیں کروں گی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
لیکن آخر مجھے کیا فرق پڑتا ہے
مٰن نے آٹھویں تک ایک گورنمنٹ سکول میں اردو کی تعلیم حاصل کی۔ اسک بعد ہم کچھ عرصے کے لئے بنگلہ دیش چلے گئے تھے اور مجھے خود سے اردو پڑھ کر او۔لیول کا امتحان دینا تھا۔ اس طرح میرا اردو سے ایک دوسرے طریقے سے بھی پالا پڑا۔
میری اردو
چونکہ مجھے او۔لیول کا امتحان دینے کے بعد واپس پاکستان لوٹنا تھا، مجھے اردو کا باقاعدہ امتحان بھی دینا لازمی تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میری اردو اچھی خاصی ہے لہٰذا میں نے چند پرانے پیپر لیکر ان کا مطالعہ کیا اور بس، یہ ہی میری کل تیاری تھی۔
میرا بال بال اے۔گریڈ آیا، جس کی وجہ سے میں تھوڑا الجھی۔ لندن کا او۔لیول کا بورڈ کا امتحان زیا دہ تر ترجمے پر مبنی تھا اور مجھے لگتا تھا اس میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیئے۔ میرا خیال میں میرے نمبر زیادہ ہونے چاہیئے تھے۔
لیکن چونکہ اردو کی اہمیت واخلے کے کاغذات کی خانہ پری سے بڑھ کر کچھ زیادہ نہ تھی، اس لئے کچھ عرصے کے بعد میں سب بھول بھال گئی۔
اس کے بعد اگلے کئی سال اردو میں پڑھے لکھے بغیر ہی گزر گئے۔ میں نے انگلش کوہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا کیونکہ وہ میرے ماحول میں رچی بسی ہوئی تھی۔ مجھ سے اردو میں ایک سیدھا سادہ جملہ بھی نہیں لکھا جاتا تھا۔ یہ احساس تب ہوا جب میں امریکہ آئی اور مجھے بول چال کے علاوہ کبھی اردو کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
پردیسیوں کی دماغی کیفیت
جب آپ اپنا ملک چھوڑ کر ایک نئی جگہ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرتے ہیں۔ اس کے لئے بہت گردہ چاہیئے۔ آپ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے ملک سے، جانی پہچانی جگہوں سے، لوگوں سے اور والدین سے دور جانے کا فیصلہ کر تے ہیں۔ یہ سب آپ کے لئے ایک مضبوط سہارا ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے سماجی دائرے کا حصہ ہوتے ہیں۔
آپ یہ سب اس امید سے کرتے ہیں کہ آپ ایک بہتر اور ترقی یافتہ ماحول کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں۔ اس لئے آپ کے ذہن میں سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ اصول وضوابط اور قوائد کی سختی سے پابندی کریں۔ آپ کی تمام رتر توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ آپ ان کہے اصولوں کی پوری پابندی کریں اور کہیں انجانے میں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس پر پچھتاوہ ہو۔ آپ ہر چیز کا باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہین، اپنی بول چال اور اٹھنے بیٹھنے کے طریقے کو بھی ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخر لے دے کے ہماری تعلیم و تربیت ہمیں یہ ہی تو سکھاتی ہے، بات ماننا اور حکم کی تعمیل کرنا!
تہذیب کا جھٹکا
میں نے بھی یہی سب جی جان سے کیا اور ایک اچھے ایمیگرینٹ یعنی مہاجر کی طرح اس بھیڑ کا حصہ بننے میں جت گئی۔ میں بھی الگ نہیں نظر آنا چاہتی تھی کہ کسی کو کوئی شک ہو۔ ہر چیز کا تعلق میرے پردیسی ہونے سے تھا۔ میرا سب سے بڑا ڈر یہ تھا کہ خدا نخواستہ کہیں میری لا پروائی کی وجہ سے ہیں میرے ویزے میں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔
ڈاکٹروں کی ریزیڈنسی کی تربیت امریکہ میں بہت کڑی اور تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ آپ ہفتے میں ۸۰ گھنٹے لگ بھگ کام کرتے ہیں اور اس میں ایک جگہ آرام سے بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ کے ارد گرد ایک اجنبی ماحول ہوتا ہے۔ آپ سارا دن چلنے ، اپنے کام اور اپنے مریضوں کے بارے میں سوچنے میں گزار دیتے ہیں۔ اگر کوئی بھی مسئلہ آپ کے کام کو لٹکا دے تو اس سے فوری طور پر نمٹنا ضروری ہے۔ شروع میں تو صرف دن مکمل کرنا ہی ایک بہت بڑی کامیابی لگتا تھا۔
اس کام کا ایک اہم حصہ صبح سویرے مریضوں کا حال چال پوچھنا ہوتا تھا۔ کئی مریض بھی امیگرینٹ یعنی مہاجر تھے۔
میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اگر آپ امریکہ آئے ہیں تو آپ انگلش میں بات چیت کر سکتے ہیں یا کم از کم اس زبان کو ہماری طرح عزت اور تکریم تو دیتے ہوں گے۔ مجھے لگتا تھا کہ تمام ایمیگرینٹ ہماری ہی طرح گھل مل جانے کی اور گروہ کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہوں گے، تاکہ ان کے یہاں آنے کو کوئی شک کی نظر سے نہ دیکھے۔
اسی وقت مجھے ایک حیرت انگیز تجربہ ہوا۔
مین اپنے ہسپانوی نژاد مریضوں اور دوستوں سے ملی۔ وہ سب اپنی مادری زبان ، یعنی ہسپانوی سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اس کو چھپانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کئی مریض ان میں سے ایسے تھے جو انگلش بالکل نہیں سمجھتے تھے اور اس طرح ان سے بات چیت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا تھا کیونکہ مجھے بالکل ہسپانوی نہیں آتی تھی۔ اس لئے ہسپانوی مترجمین کا سہارا لینا پڑتا تھا جس میں بہت وقت بھی ضائع ہوتا تھا۔ اس لئے، بغیر محنت کئے میں نے چند ایک ہسپانوی الفاظ بھی سیکھ لئے۔ اس طرح مترجم کے آنے تک میں چند ایک سوال خود پوچھ سکتی تھی۔ اس طرح ایک ایسی زبان سے میں متعارف ہوئی جس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی تھی۔
اسی وقت میرے ساتھ ایک ایسی بھی ڈاکٹر تھی جس کی نیلی آنکھیں تھیں، سنہری بال تھے اور اسکے والدین پولینڈ سے تھے لیکن وہ امریکہ میں پلی بڑھی تھی۔ اسے نا صرف پولش اور انگلش آتی تھی، بلکہ وہ ہسپانوی بھی روانگی سے فر فر بول سکتی تھی۔ اس نے اپنے ہائی سکول میں لاطینی زبان پڑھی تھی اور بعد میں سفر کرتے ہوئے ہسپانوی زبان کو اور قریب سے جانا تھا اور سیکھا تھا۔ وہ بالکل مقامی لوگوں کے لب و لہجے کی طرح ہسپانوی بول سکتی تھی۔ ( اس کا اعادہ مجھے میرے ہسپانوی دوستوں سے ہوا تھا)
مجھے ایسا لگا کہ وہ دوسروں سے الگ ہے، ہر کوئی اس کی طرح اتنی زبانیں نہیں سیکھتا ہو گا۔ اسے اپنی مادری زبان اور انگلش، یعنی مقامی زبان اچھی طرح آتی تھی۔ تو اسے کیا ضرورت تھی ایک اور زبان سیکھنے کی؟ اس کا جواب تھا کہ اس کو دنیا گھومتے ہوئے اس زبان سے پیار ہوا اور بس!
بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ اور بھی کئی انگلش بولنے والے لوگ کم از کم ایک اور زبان سیکھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں موجود زبان کے محدود مقصد کا تصور اپنے آپ زائل ہو گیا۔
زبان کا آخر کیا تعلق ہے؟
میرے ذہن میں موجود زبان کی افا دیت اور ضرورت کا جو تصور میرے ماحول کی وجہ سے موجود تھا وہ بہت تبدیل ہوا۔ میں نے یہ جانا کہ زبان تو صرف ایک ذیعہ ہے۔ جب آپ کو ضرورت ہو آپ سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ ایک لوگوں کے گروہ سے بات کرسکتے ہیں اور تبادلہِ خیال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جو خوبیاں اس کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں وہ ان لوگوں کی پہچان کا حصہ بن جا تی ہیں۔ زبان کا نہ تو مذہب ہے نہ ملک ۔
آپ کی دلچسپی تجسس کی بنا پر ہو سکتی ہے ( جیسے ہسپانوی میرے لئے) اس کے علاوہ یہ شوق اس زبان سے جڑی تاریخ و ثقافت کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ( جیسے ارتغرل کے پرستاروں کے لئے ترک زبان)۔ ہو سکتا ہے یہ آپ کی نوکری کا تقاضہ ہو ( جیسے جرمن یا ہسپانوی)
سوچ سمجھ کر چنیں
سب سے اہم بات جس کا احساس ہوا وہ یہ تھی کہ آپ کو صرف ایک زبان چننا ضروری نہیں۔ آپ کا ذہن ایک سے زائد زبانیں سیکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
جب آپ دو زبانیں جانتے ہیں تو خود بخود تیسری زبان سیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ میں نے ایک مہمان پوسٹ شائع کی تھی جس میں اردو بولتے ہوئے فرنچ سیکھنے کی آسانی کے بارے میں تجربہ بیان کیا گیا تھا۔ (یہاں پڑہیں)
یہ سب جاننے کے بعد میرا اور بھی مصمم ارادہ ہو گیا کہ مین نے اپنے بچوں کو دو زبانیں تو ضرور سکھانی ہیں۔
مین اس کے لئے سب سے آسان طریقہ اختیار کرنا چاہتی تھی۔ انگلش تو ہر حال میں ان کے ماحول کا حصہ بننی تھی۔ اس کے علاوہ میں انہیں جوزبان خود جانتے ہیوئے سکھا سکتی تھی وہ تھی اردو۔
اس مقصد سے جب ادھر اُدھر دیکھا تو مجھے کوئی خاص اردو سکھانے کی چیزیں نظر نہیں آئیں۔ اب تو پتہ چلا کہ اردو کے قائدہ میں بھی انگریزی الفاظ کی ملاوٹ جاری یے (ہ سے ہیلیکوپٹر) میں سخت تذبذُب کا شکار ہوئی۔ آخر میں اپنے بچوں کو اردو کیسے سکھاؤں گی اگر میں خود بگیر انگلش ملائے ایک جملہ اردو میں نہیں لکھ سکتی؟
میں جان گئی کہ سب سے پہلے خود اپنی اردو پر توجہ دینا ہو گی اور اس کے لئے خود سوچنا ہو گا کہ کیا کیا جائے۔
اپنے آپ سے آغاز
مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے دوبارہ سے اردو سننا، لکھنا اور پڑھنا ہو گی۔ اس لئے میں نے سب سے پہلے اخبارِہاں پڑھنا شروع کیا، جو اس وقت آن لائن موجود تھا۔ میں نے چند ایک پرانے پاکستانی ڈرامے بھی دیکھنے شروع کیئے ، جن میں سنہرے دن اور دھوپ کنارے شامل ہیں۔ میں نے اس کے علاوہ ایک ڈائری بھی لکھنی شروع کی جس میں میں اپنے خیالات اردو میں قلمبند کرتی تھی۔ اس طرح مجھے اپنے ذہن کو اردو استعمال کرنے کی طرف راغب کرنا پڑا۔ میں نے اس کے علاوہ واپس جاتے ہوئے ملک سے اردو کی کتابیں بھی خریدنی شروع کیں۔
یہ بھی بتاتی چلوں کہ یہ سب کچھ کرنے میں ماہ وسال لگ گئے۔
یہ بلاگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس طرح ایک سے بڑھ کر ایک اردو کو بڑھانے کے طریقے ذہن میں آتے گئے۔ اس طرح مجھے ایسے بھی کئی عزیز دوست ملے جنہوں نے خوب پزیرائی کی اور ہمت بڑھائی۔ اسی وجہ سے میرا حوصلہ بلند ہوتا ہے کہ میں اس سلسلے کو جاری رکھ سکوں۔
ایک ایسے ہی مداح نے یہ دلچسپ نظم بھی مجھے بھیجی، ملاحظہ فرمائیے۔
میں جانتے ہوں ابھی بھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ لیکن میں یہ بات وثوق سے کہ سکتی ہوں کہ میں نے یہ سب کچھ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد سیکھا ہے۔ وہی آواز جو مجھے ایک پر مقصد سوچ کی طرف راغب کر رہی تھی، جو میرے وجود کا ایک حصہ ہے۔
امید کرتی ہوں کہ آپ کو بھی اس پوسٹ سے میری اردو سے محبت کے بارے میں کچھ اندازہ ہوا ہو گا۔ ابھی بھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا باقی ہے۔
آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
Read this in: English