Read this in: English
آج کل کے زمانے میں بچوں کی تربیت کرنا ایک الگ کام تصور کیا جاتا ہے۔ مختلف طریقوں سے تربیت کا بچے کی آنے والی زندگی پر کافی اثر پڑتا ہے۔ لیکن کس حد تک ایسا ہوتا ہے اس کے بہت سے محرکات ہیں۔ آج میں والدین کے انداز کے بارے میں بات کروں گی۔
تربیت کرنے میں کون کون شامل ہے؟
اس سلسلے میں جو شخص بھی براہِراست بچے کا خیال رکھتا ہے اسے ہم اس کی تربیت کا ذمہ دار کہیں گے۔ اس میں والدین کے علاوہ اور لوگ بھی شامل ہیں۔
دادا دادی، نانا نانی اور جو کوئی بھی بچے کا خیال رکھتا ہے، اس کا رویہ اس تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔
تربیت کے مختلف طریقوں کو کیسے سمجھا جائے؟
اس وقت جو مختلف اصطلاحات اس سلسلے میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا تعلق ایک طبیعات کی ماہر سائیکولوجسٹ ڈائنا بام رنڈ کی ایک اسٹڈی سے ہے۔
۱۹۶۰ میں انہوں نے درمیانے طبقے کے ۱۰۰ پری سکول بچوں کے رویوں کا جائزہ لیا۔ اس کے لئے انہوں نے انٹرویو کیئے اور ان کا تجزیہ کیا۔
اس طریقے سے انہوں نے دو چیزوں کا اندازہ لگایا جن کی مدد سے زیادہ تر رویوں کو سمجھنے میں مدد ملے۔
اس طرح گراف میں دو فرضی خط بنائے جن سے تین طرح کے تربیت کے انداز کو تقسیم کیا گیا۔ پہلا خط تھا خیال رکھنے والوں کا ردِعمل اور دوسری طرف تھا ان کا مطالبہ۔
پہلا خط والدین کا ردِعمل
ان کے اپنے الفاظ میں اس کو کچھ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے” وہ حد جہاں تک والدین بچے کی انفرادیت، خود پر قابو رکھنا، اپنے دعوے پر قائم رہنا جیسی خوبیوں کو ترجیح دینے کے لئے ان کی ضروریات سے باخبر ہوتے ہیں۔”
آسان الفاظ میں ایسے سمجھیں کہ والدین کس حد تک بچوں کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرا خط: والدین کے مطالبات
ان کے الفاظ میں: والدین کے وہ مطالبات جن کے ذریعے وہ بچے کو گھر کا ایک فرد بناتے ہیں ، جس میں ان کی بلوغت، نگرانی، گھر کے اصولوں کا احترام اور ان کو توڑنے کے نتائج کا سامنا کرنا شامل ہیں۔ Baumrind 1991
یعنی کہ والدین کی بچوں سے کیا توقعات ہیں۔ اس کا ایک حصہ بچوں کے روئے سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
تین اقسام کی تربیت
اس وقت کے حساب سے ان کی ریسرچ اور تحقیق کے نتائج بیت انقلابی قسم کے تھے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ پتھر میں لکیر کی طرح نہیں ہیں، لیکن اس تحقیق کی بنا پر تربنیت کی اقسام کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔
تحکمانہ انداز :(ڈکٹیٹر والا انداز)
یہ وہ والدین ہوتے ہیں جو طبیعتاً زیادہ سخت ہوتے ہیں، ان کی توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور سزا بھی ملنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔
ایسے والدین بالکل بھی بدتمیزی کو برداشت نہیں کرتے اور اکثر اس کے نتیجے میں سزا دینے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔ ان کے مطابق بچوں کو قائدوں کے مطابق بڑا کرنا ہوتا ہے جس میں ہر چیز کا پہلے سے ہی فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔
ان کے نزدیک بچے کی تعریف خطرناک ہوتی ہے کیونکہ ان کے لئے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بچہ سر چڑھ جائے گا۔
گراف کے خطوط کے مطابق ان کا خانہ وہ ہے جہاں پران کے مطالبات سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور بچے کی ضروریات کا احساس کم ہوتا ہے۔
کھلی اجازت دینے والی تربیت (چلتا ہے تو چلنے دو)
یہ ایسے والدین ہیں جو بچوں سے بہت کم توقعات رکھتے ہیں اور اس کی جگہ بچوں کی انفرادئیت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
ان کے نزدیک بچے انکے دوست ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تربیت کے نتیجے میں اکثر بچے صرف شگل میلے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں سخت قسم کے اصول اور قوانین بالکل ناپسند ہوتے ہیں۔
یہ اکثر رشوت دے کر یا ساز باز کے ذریعے بات منواتے ہیں۔
ان کے ہاں بہت کم اصول رکھے جاتے ہیں اور ان کا بچوں کے رویہ پر کوئی خاص قابو نہیں ہوتا۔
گراف پر یہ اس جگہ پائے جاتے ہیں جہاں کم مطالبات ہوتے ہیں اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔
مستند تربیت: ( اصول دار بھی اور مدد گار بھی)
یہ وہ تربیت ہے جن میں پچھلے دونوں طریقں کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
اس انداز میں وہ بچے کی تربیت کے اصول بھی صاف صاف سامنے رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ بچے کی ضروریات پر بھی توجہ دیتے ہیں اور اس کی بات سنتے ہیں۔
وہ ہر چیز کے لئے بتا کر اصول بناتے ہیں اور ساتھ ہی بچے کو یہ آزادی بھی دیتے ہیں کہ وہ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے خود سیکھے۔ ان کے نزدیک بچے کی اپنی انفرادی شخصیت پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔
اس لئے وہ بچے کی برحق تعریف کے ذریعے اس کے اچھے روئے کی پذیرائی کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح بچہ ان کی رضامندی کے لئے اور بھی اچھے کام کرنا چاہتا ہے۔
اس اندازکو آج کل مثبت تربیتی انداز کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک اور انداز: کاہل مزاج تربیت
ان کے کام کی بدولت مزید ریسرچ کے بعد ۱۹۷۱ میں ایک اور انداز کا اضافہ کیا گیا۔
اس کے مطابق وہ والدین اس میں شامل ہیں جو بظاہر بچے کی ضروریات تو پوری کر دیتے ہیں، لیکن وہ جذباتی طور پر بچوں سے خود کو دور رکھتے ہیں۔
اس انداز میں پلنے والے بچے اکثر زیادہ پر اعتماد نہیں ہوتے اور باقی بچوں کے مقابلے میں سماجی طور پر میل ملاپ میں کچھ کمزور زیادہ ہوتے ہیں۔
وہ سکول میں بھی پیچھے ہوتے ہیں۔
ان کا شمار کم توقعات اور کم ردِعمل دینے والے والدین میں ہوتا ہے۔
آپ اپنی تربیت کے انداز کو کس طرح پہچان سکتے ہیں؟
ان مختلف اقسام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قسم کی تربیت کا انداز کسی ایک قسم میں پورا پورا فٹ ہو گا۔ قدرتی طور پر ہم سب کسی نہ کسی معاملے میں مختلف انداز کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
گھر کے ماحول کا بھی ان نتائج پر اثر ہوتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا لازم ہے کہ بہت سے ایسے محرکات ہوتے ہیں جن کا تعلق ثقافتی اور سماجی چئزوں سے ہوتا ہے اور ان کو اس تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس کے علاوہ آمدنی اور معاشی فرق کا بھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ تمام تر بچے درمیانی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس سلسلے میں میانہ روی اختیار کرنا ضروری ہے۔ آج کل اس میانہ روی والے انداز کو مثبت تربیت سے منسوب کیا جاتا ہے۔
مثبت تربیت کسے کہتے ہیں؟
اس سلسلے میں میں نے ایک آن لائن سیشن میں شرکت کی تھی۔ یہ خیال ہی پریشان کن تھا کہ تربیت مثبت یا منفی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کی خصوصیات مستند اور اصول دار تربیت کے انداز سے ملتی ہیں۔
اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے آپ بچے کو سکھاتے ہیں کہ آپ
- ان کا خیال رکھنا
- انہیں سکھانا
- ان سے کھل کر بات کرنا
- اور انکی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ یہ سب مستقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیا ہم اپنا انداز تبدیل کر سکتے ہیں؟
کئی والدین اس بات سے بے خبر ہیں کہ جس طرح انہیں اپنے والدین سے تربیت ملی تھی، کم وبیش ویسی ہی تربیت وہ بھی اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ اگر انہیں بچپن میں مار پیٹ کا نشانہ بننا پڑا تھا تو بڑے ہو کر ان کے لئے یہ رویہ معمولی اور نارمل ہو گا۔ اگر انہیں توجہ نہیں ملی تھی یا کھلی چھوٹ حاصل تھی تو بحیثیت والدین ان کا بھی ایسا ہی رویہ ہو گا۔
لیکن اس کو بدلا بھی جا سکتا ہے۔ آپ کی اپنی تربیت کا اثر اپنی جگہ، لیکن آپ اس بارے میں مزید جان کر اور پڑھ کر اپنا تجزیہ کر سکتے ہیں۔
اس طرح آپ مثبت تربیت کرنے کے طریقوں کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں، جن کے بارے میں میں مزید پوسٹس بھی شائع کروں گی۔ یاد سے نیوز لیٹر کا حصہ ضرور بنیئے گا۔
آپ ضرور بتائیے گا کہ کون سے پہلو کے بارے میں آپ سب سے پہلے جاننا چاہیں گے۔
Read this in: English