Read this in: English
اس وقت دنیا کے جو افسوس ناک حالات ہیں ان کے پیچھے ایک اہم وجہ ہماری جذباتی دوری بھی ہے۔ ہمدلی ایک اہم جذبہ ہے جو کہ ہمدردی سے مختلف ہے۔ اس کے مطلب ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے تجربے کے بارے میں سوچیں اور سمجھیں۔ یہ سکھانا بالکل بھی آسان نہیں لیکن انتہائی اہم ہے۔ اس پوری وبا کو پھیلے ہوئے ایک سال ہونے کو آیا ہے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو گئی ہے۔ اس دوران احتیاط برتنے کے لئے سکرین کا ہر جگہ استعمال عام ہونے کے ساتھ ساتھ ناگزیر ہو گیا ہے۔ آپس کا میل جول بھی ایسے تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کے وجہ سے ہمارے آپس کے تعلقات میں بھی خلل پڑا ہے۔ ہماری انسان ہونے کے ناطے جو ایک دوسرے سے بات چیت اور رابطے کی خواہش ہوتی ہے اس پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ آخر ٹی دی پر نظر آنے والے کرداروں اور اصلی لوگوں میں فرق کیسے کیا جائے جب دونوں ہی پہنچ سے دور ہیں۔ اسی لئے اپنے بچوں کو ہمدلی کے بارے میں بھلا کیسے سکھایا جائے؟ وہ بھی تو اس دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ہمدلی سے میرا تعارف
میرہ بیٹی نے پچھلے سال کے جی شروع کیا جو کہ اس سماجی فاصلے کے پس منظر میں گھر بیٹھے ہی تھا۔ اس کے سکول کا پہلا دن گھر میں ایک وائٹ بورڈ پر لکھی خوش آمدید کی تحریر سے ہوا۔ اس کے بعد وہ ساتھ والے کمرے میں اپنی ٹیچر اور کلاس فیلوز سے ملی، بذریعہ زوم جس میں ہر کسی کو تین انچ کے مستطیل کی حد تک برابری دی جاتی ہے۔ سب بچوں کے چہرے سکول کی خوشی میں دمک رہے تھے۔
میں بھی مضطرب حالت میں کلاس کا مطالعہ کر رہی تھی۔ وقتاً فوقتاً ضروری اشیا دیتی جا رہی تھی۔ لگ رہا تھا ساتھ ہی ساتھ میرا بھی سکول بھی سکول شروع ہو گیا۔ اس دوران نوٹ کیا کہ ایک بچہ بار بار ٹیچر کی بات کے دوران بولے جا رہا تھا۔ یہ سلسلہ اگلے چند دن تک ہوتا رہا۔ میرا بیٹی جو تھوڑی شرمیلی اور خاموش طبع ہے، وہ آگے سے کچھ نہیں کہہ رہی تھی۔ لیکن مجھے بار بار اس چیز سے الجھن ہو رہی تھی۔ ایک دن اسی طرح جب وہ بچہ بات کاٹ رہا تھا میں اونچی آواز میں بچے پر چیخی اور میری بیٹی وہیں منجمد ہو گئی۔ اگرچہ میری آواز کلاس تک نہیں پہنچی تھی، مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور میں کچھ دیر کے لئے پیچھے ہٹ گئی۔ اسی دوران مجھے ٹیچر کی آواز آئی جو اس بچے کو تنبیہہ کر رہی تھی اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی تلقین بھی کر رہی تھی۔
یہ دوسروں کے لئے کہنا آسان ہوتا ہے کہ آپ ہمدردی اور ہمدلی دکھائیں۔ لیکن عملی طور پر ایسا کرنا ایک بہت مختلف تجربہ ہوتا ہے۔ جونہی مجھے لگا کہ میری بیٹی کو بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا، میں نے فوراً اس معصوم بچے کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا ڈالا، جس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ میں نے اسے محض ایک تین انچ کے مستطیل تک محدود کردیا۔ اس لمحے میں نے اس بچے کے جذبات کے لئے ہمدلی کا قطعاً کوئی اظہار نہیں کیا۔
ہماری ہمدلی کہاں سے آتی ہے؟
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم پیدائشی طور پر اس قابل تو ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے جذبات کو محسوس کر سکیں۔ لیکن ہمدلی اور ان جذبات کو سمجھنے کا عمل قدرتی طور پر موجود نہیں ہوتا۔ اس کے بارے میں آہستہ آہستہ ہمیں سیکھنا ہوتا ہے۔ بہت کچھ عمر کے ساتھ ساتھ بھی سمجھ میں آتا ہے۔ مثال کے طور پراس مطالعے کے مطابق، سات سے چالیس سال کی عمر کے لوگوں کے ذہن کا جائزہ لینے کے لئے ایم آر آئی مشین استعمال کی گئی۔ اس کے ذریعے دیکھا گیا کہ ایسی حالت میں جس میں تکلیف دہ چیز نظر آرہی ہو (چاہے وہ جان بوجھ کر کی گئی ہو یا پھر حادثاتی طور پر) تو اس کا ان کے ذہن پر کیا اثر ہو گا۔ جب انہیں حادثاتی تکلیف دکھائی گئی، تو ان کا بہت جذباتی ردِ عمل تھا، جب کہ جان بوجھ کر تکلیف دینے کے عمل کے نتیجے میں ان کا ذہن سوچنے کے عمل میں مصروف نظر آیا (یعنی وہ اس کے بارے میں سوچ رہے تھے)۔
بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ وہ تمام ارد گرد جذباتیت کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، ان کا ذہن ان احساس کے پیچھے موجود وجہ کے بارے میں زیادہ سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح ہم بڑے ہوتے ہوتے ان جذبات سے مغلوب ہونے کی بجائے ان سے نمٹنے کے طریقے سیکھتے ہیں۔ آگے جا کے انہیں طریقوں کے نتیجے میں نسلی تضاد، دھونس بازی اور دھمکی آمیز شخصیت کی بنیاد بھی ڈلتی ہے۔
ہم اپنے بچوں میں ہمدلی کے جذبے کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں
بچے پیدے ہونے کے بعد مختلف جذبات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ان جذبات کے نتیجے میں کیا کرنا ہے، اس کا اندازہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے لگاتے ہیں۔ اسی لئے اگر ان کا خیال رکھنے والے اس بات سے واقف ہوں کہ کن طریقوں سے انہیں ہمدلی کے بارے میں سکھایا جا سکتا ہے، تو یہ ایک اہم قدم ہے۔ اس مقصد کے لئے کھیل اور کہانیاں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح کی چیزوں سے انہیں دوسروں کے نقطہ نظر سے زندگی کو سمجھنے کا موقع ملے گا، اور آہستہ آہستہ ہمدلی کا جذبہ فروغ پائے گا۔
ہمدلی ماحول سے سیکھی جاتی ہے، سکھائی نہیں جاتی۔
؎ میری گورڈن ، روٹس آف ایمپیتھی کی بانی
اس سلسلے میں سب سے پہلے جذبات کا اندازہ لگانا ہے کہ کون سی کیفیت سے بچہ گزر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک پوسٹ میں نے تفصیل سے لکھی ہے۔ اسے آپاس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
اس لئے اس پوسٹ میں میں چند مزید چیزوں کا اضافہ کروں گی جن سے ہمدلی کے تصور کو زیادہ سمجھا جا سکتا ہے۔
۱۔ دوسروں کے احساسات کے بارے میں بات کریں
اس سے انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس طرح وہ ایک جذبے کو محسوس کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی دوسرے بھی وہ جذبات محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح مثال کے طور پر ایسے کہا جا سکتا ہے، ” آپ کی بہن اداس محسوس کر رہی ہے کیانکہ اس کی گڑیا گم ہو گئی ہے، چلیں اسے مل کر گڑیا ڈھونڈ کر دیں۔”
۲۔ اگلا قدم، انہیں موقع دیں کہ اس احساس کے نتیجے میں اسے ٹھیک کرنے کا طریقہ سوچیں
اس طرح ان کو خود سوچنے کا موقع ملے گا کہ کیا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ہم ان سے اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ، “لگتا ہے کہ آپ کے بھائی کو چوٹ لگی ہے، چلیں اس کے لئے بینڈ ایڈ لے کر آئیں”۔
3. احساسات اور جذبات کے بارے میں کہانیاں پڑھیں۔
اس سلسلے میں مجھے اردو میں تو کتابیں نہیں ملیں، لیکن انگریزی زبان میں چند اچھی کتابیں نیچے ہیں۔
ابھی ( رائٹ ناؤ) نامی سلسلہ برائے چائلڈ سائیکولوجسٹ ڈاکٹر ڈینیلا اوون
۴۔ اپنے جذبات کو نام دینے کے لئے جملے کی ابتدا میں سے کرنا۔
یہ ایک اہم طریقہ ہے جو ہم بڑوں کے بھی کام آ سکتا ہے۔ مثلاً جواب دیتے ہوئے آپ نے اپنے احساس کا نام پہلے لینا ہے۔ “مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ مجھے کک کر رہی ہیں، مجھے درد ہوتا ہے اور میں اداس ہو جاتی ہوں”۔
ہر چیز کی ابتدا ہم سے ہوتی ہے۔
ہر چیز کی طرح یہ سیکھنا بھی صبر طلب اور محنت طلب کام ہے۔ میں خود بھی بحیثیت ایک ماں اس بارے میں مزید سیکھ رہی ہوں ۔ ہماری نسل کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ہم ان پیچیدہ موضوعات کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں اور ان کے جذباتی اور سماجی پہلو بھی جان سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اس سلسلے میں بہتری لا سکتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں۔
مجھے بھی اپنے خیالات ضرور بتائیے گا۔ اور دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں۔
Read this in: English