Read this in: English
جونہی میں اپنی تین سالہ بیٹی کو سکول سے لیکر نکلی اور گود میں اٹھانا چاہا، اس نے فوراً منع کر دیا۔ اسکی بجائے وہ اچھلتی کودتی گاڑی کی جانب بڑھی اور دروازہ خود کھولنے کی ضد کرنے لگی۔ گاڑی میں بٹھا کر میں نے اس سے کہا کہ کیا میں اسے پیار کر لوں؟ اس نے صاف انکار کر دیا اور فوراً سے اپنے پسندیدہ گانے کو سننے کی فرمائش کر ڈالی۔ آج کل میشا شفیع کا بوم بوم بڑا مشہور ہے۔ میں نے اس کی فرمائش پوری کی اور اسے سیٹ میں بٹھا کر گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ میں ہمیشہ سے جانتی تھی کہ ایک دن ایسا ہو گا، لیکن اتنی جلدی کیسے؟
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں پہلی بیٹی کے آنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ آسان اس لئے لگ رہا تھا کہ میری میڈیکل کی ٹریننگ مکمل ہو چکی تھی۔ میرے ساس سسر بھی پہنچ چکے تھے۔ زیادہ تر دھیان میرا اپنی بے بی رجسٹری کو پورا کرنے اور بچے کے کپڑوں کو دھونے میں لگا ہوا تھا۔ میں گھر میں سب سے بڑی تھی اس لئے ایسا کوئی نہیں تھا جو پیدائش کے عمل سے اس وقت گزرا ہو کہ اس سے کچھ تجربے کے بارے میں ہی پوچھ لیتی۔ خود اپنا دودھ پلانے کا میرا پکا ارادہ تھا اور اس بارے میں کبھی کوئی دوسری سوچ ذہن میں آئی ہی نہیں۔ آخر ہے تو یہ ایک قدرتی عمل، بھلا اس کےبارے میں سوچنے کی کیا ضرورت؟ آخر کتنا مشکل ہو گا جھٹ گود میں بٹھا کر دودھ فٹافٹ پلا دینا، ڈراموں اور ٹی وی میں تو ایسا ہی نظر آتا ہے۔
قصہ مختصر یہ میری خام خیالی تھی۔ سارا عمل بہت ہی مشکل تھا۔ بے حد صبر آزما! اتنا مشکل کہ ہر رات سونے کے وقت یہ وحشت سی طاری ہوتی تھی کہ اگلے آٹھ گھنٹے کیسے گزریں گے۔ اپنی ممتا کے نمبر صفر اور منفی میں شمار کرتی تھی۔ یہ آہستہ آہستہ بہت دیر تک چلتا رہا اور اسکے نتیجے میں غصہ، تنہائی، بیچارگی اور اداسی جیسے جذبات مستقل محسوس ہوتے رہتے۔ ہر کوئی الگ الگ مشورہ دیتا تھا۔ یہ فکر مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ بچی کا وزن کیوں نہیں بڑھ رہا۔ جب بھی دودھ پلانے کے لئے ساتھ لگاتی تو درد کے مارے ہونٹ دانتوں تلے دبا لیتی اور یہ سلسلہ ہر چند گھنٹے بعد دہرایا جاتا۔
دہ ہفتے کے بعد مجھے ایک دودھ پلانے کے امراض کی ماہر کے ہاں جانے کا مشورہ ملا۔ وہ کوئی چالیس میل دور کلینک کرتی تھی۔ خیر جب پہنچے تو مجھے تو اس کے شعبے کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔ صرف ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید کوئی مددگار مل جائے جو اس اذیت سے چھٹکارا دلا دے۔
اور بھلا ہو اس کا، مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ اس نے ڈھیر سارا وقت لگا کر تسلی کے ساتھ میرا معائنہ کیا اور تفصیل سے بتایا کہ کیا کیا بہتر ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس نے چند قدرتی دوائیں بھی بتائیں جو میری مدد کر سکتی تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی معلومات دیں جن سے مجھے اس عمل کو بہتر سمجھنے میں مدد ملی۔ آخر میں اتنی تسلی ہو گئی تھی کہ کوئی ایسا ہے جو میری مدد کر سکتا ہے اور اس مشکل وقت میں مشعِل راہ بن سکتا ہے۔ اس وقت یہی عظم کیا تھا کہ کھینچ تان کر چھے ماہ کا وقت نکال لوں تاکہ اس کے بعد ہلکا پھلکا کھلانے کا وقت آجائے۔
میں نے پورے دو سال دودھ پلایا۔
میرے اس تجربے کے بعد اتنا اندازہ تو ہو گیا کہ دوسری دفعہ مجھے شروع سے ہر بات کا کافی اچھی طرح اندازہ تھا کہ کس کس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے اور کیا اہم ہے۔ ساتھ ہی اپنا خیال بھی رکھنے کا بہتر اندازہ تھا۔ میری بیٹی کو اس طرح دودھ پینے میں مشکل پیش نہیں آئی اور اس نے بھی دو سال دودھ پیا۔
کاش میں کہہ سکوں کہ میرا پہلا تجربہ حیران کن تھا۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔
پاکستان میں پیدائش کے فوراً بعد فارمولا دینا عام ہے۔ دودھ پلانے کے ماہر تو دور دور تک نہیں، اور نہ ہونے کے برابرایسے بچوں کے ڈاکٹر ہیں جو دودھ پلانے کی ترغیب دیتے ہوں۔ ماؤں کا پریشان اور جذباتی طور پر مغلوب اور کمزور ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ حالانکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انہیں اچھے مشورے اور تلقین کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی طرف سے نیک نیتی سے بوتل دینے کا مشورہ اس لئے دیا جاتا ہے کہ ذرا ماں کو سونے دے دیا جائے، اس بات سے بے خبر کہ اس سے ماں کے شروع میں دودھ پلانے کے عمل پر کتنا منفی ردِعمل ہوتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ فارمولے کی مارکیٹنگ اور تشہیر بھی ہے۔ صرف ۲۰۱۴ میں پوری دنیا میں فارمولے کی بِکری کی تعداد لگ بھگ ۴۴۔۸ بلین ڈالر تھی۔
اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو ماں کا دودھ پلانا اس قدر فائدہ مند ہے کہ سال کے اندازاً تین سو دو بلین ڈالر یعنی دنیا کی عوامی آمدنی میں ۰.۴۹ فیصد اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے کئی اور معاشرتی فائدے بھی ہیں اور یہ ماحولیات میں بھی بہتری لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
آج کل ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں ماؤں کو پیدائش کے بعد جلد سے جلد کام پر واپس آنے کا دباؤ عام ہے۔ اس طرح ان کا وقت بھی محدود ہوتا ہے۔ بچے کے ساتھ تسلی سے اپنے رشتے کو وقت دینا بہت دشوار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کام پر جانے کے لئے پیچھے بچے کا خیال رکھنے کے وسائل کی کمی بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
بعض صورتحال میں فارمولا ناگزیر ہے۔
لیکن ایک چیز جس کی اہمیت کو صحیح طرح سمجھا نہیں جاتا وہ ہے ماں کے اپنا دودھ پلانے کے عمل کی سمجھ اور آگاہی، جو شروع میں بیحد اہم ہوتی ہے۔ خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایک صحت مند دودھ پلانے کا سفر کیسے شروع کیا جاتا ہے اور اسے جاری رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہیئے۔
میرے اپنے تجبے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اس کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں لیکن سمجھے بغیر غلطیاں کرنا بہت آسان ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنا علم ان ماؤں تک پہنچا سکوں جو اس مشکل سے گزر رہی ہیں اور خود کو اکیلا اور ناکام تصور کر رہی ہیں۔ اپنی قریبی رشتہ داروں کو میں پیدائش کے وقت بریسٹ پمپ تحفتاً دیتی رہی ہوں۔
سچی بات تو ہے کہ دودھ پلانا سیکھنا اتنا مشکل کام نہیں۔ شرط یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں چند باتوں کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔
اسی لئے مجھے بہت دلی خوشی ہوئی یہ جان کر کہ میرے میڈیکل کالج سے میری ایک دوست ڈاکٹر زھرہ کمال نے باقاعدہ تربیت لے کر دودھ پلانے کے ماہر کہ حیثیت سے امتحان بھی پاس کر لیا اور وہ اب ایک بورڈ سرٹیفائیڈ لیکٹیشن کنسلٹنٹ (یعنی ماہرِ امراض برائے دودھ پلانا) کے طور پر مریض دیکھتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی مدد سے بہت سے لوگوں کی زندگی تبدیل ہو رہی ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ میری پاڈکاسٹ میں اپنے تجربے کے بارے میں معلومات دینا چاہیں گی تاکہ سننے والوں میں اس کے بارے میں شعور پیدا ہو۔ میں ممنون ہوں کہ انہوں نے اس سلسلے میں شرکت کی حامی بھری۔
اگلے چند ہفتوں میں میں ان کے ساتھ پاڈکاسٹ پر انٹرویو بھی شائع کروں گی اور ساتھ ہی اس طرح کی ایک پوسٹ جس میں تمام تر معلومات بھی ہوں گی۔ اس طرح میری کوشش ہے کہ اردو میں ایسا ذخیرہ بن سکے جو لوگوں کے کام آ سکے، بطور خاص جو دودھ پلانے کے عمل سے یکسر ناواقف ہیں ( جیسے شروع میں میں تھی)
آپ کا سفر کیسا تھا؟ آپ کے لئے سب سے برا حصہ کیا تھا؟ یاد سے نیوز لیٹر کے لئے سائن کرنا مت بھولیئے گا تاکہ آپ کو ان پوسٹس کے بارے میں پتہ چلتا رہے۔
Read this in: English