Read this in: English
دو زبانیں بولنے کی صلاحیت کے بارے میں آپ جس سے بھی سوال کریں گے، یقیناً آپ کو ہر قسم کی رائے ملے گی۔ والدین بھی اس کے بارے میں ملے جلے تاثرات رکھتے ہیں۔ دو زبانیں بولنے کی صلاحیت کے بارے میں کئی غلط فہمیاں بھی موجود ہیں۔ اور اگر آپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کا بھی ان تاثرات اور سوالات سے واسطہ پڑا ہو۔
میں نے اپنی بیٹی کو امریکہ کے انگلش بولنے والے ماحول میں اردو سکھانے کی کوشش کی تو میرا بھی کچھ ایسا ہی تجربہ ہوا ۔ اسی لئے مجھے لگا کہ اس کے بارے میں کچھ درست معلومات فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ والدین کو ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں کچھ آسانی رہے۔
اہم اعلان: میں نے بولنے کے امراض میں ڈگری نہیں لے رکھی اور نہ ہی میں ماہر؍لسانیات ہوں۔ یہ نتائج میرے ذاتی تجربے اور جدید تحقیق پر مبنی ہیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچے کی بولنے کی اور سننے کی صلاحیت میں کچھ کمی بیشی موجود ہے تو جلد اپنے بچے کے ڈاکٹر اور ماہر امراضِ لسانیات سے مشورہ کریں۔
دو لسانی کسے کہتے ہیں؟ زبان بولنے کی بولی
دو لسان اُس شخص کو کہتے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانیں بول سکتا ہو۔ پاکستان میں رہتے ہوئے گھر میں پنجابی، پشتو، سندھی، ہندکو جیسی علاقائی زبانیں بولنا اور گھر سے باہر سکول میں اردو اور انگلش سیکھنا اور بولنا عام سمجھا جاتا ہے۔
اسکے علاوہ، مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں قرآن پڑھنے کے لئے عربی کی تعلیم دینا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے، (چاہے آپ بات چیت عربی میں نہ کر سکیں)۔ لہذا صرف ایک زبان بولنا ان حالات میں غیر معمولی معلوم ہوگا۔
اگر اس طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں کئی زبانیں بولنا ایک عام سی بات لگتی ہے۔
عام طور پہ دونوں زبانوں میں سے ایک زبان حاوی ہوتی ہے جو روز مرہ میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ لیکن وہ حاوی زبان ارد گرد کے ماحول کے مطابق تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
زبان نہایت طاقتور چیز ہے۔
اپنا ملک ترک کر کے امریکہ ہجرت کرنے کے بعد اپنے ملک کی تہزیب اور ثقافت سے ناطہ قائم رکھنا اور بھی ایمیت اختیار کر گیا ہے۔ ہماری زبان کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ لیکن اپنی اولاد ہونے کے بعد اپنے بچپن کے ماحول کی صحیح قدر محسوس ہوتی ہے۔
ہمیں اپنی مادری زبان سیکھنے کے لئے کبھی محنت نہیں کرنی پڑی۔ خاندان میں ملنا جلنا اور بڑوں سے بات چیت کرنا سب اردو میں ہوتا تھا۔ ٹی وی کے ڈرامے، خبرنامہ اور مشہور گانے سب کچھ اردو میں تھا۔ بچوں کا مشہورومقبول میگزین تعلیم و تربیت بھی اردو میں تھا! لیکن آہستہ آہستہ اردو کم سے کم ہوتی گئی۔ سکول کے بعد کالج میں تو بیشتر وقت انگلش کام آتی تھی۔
دو زبانیں بولنے کی صلاحیت قائم رکھنا کیوں مشکل ہے؟
جب ہم امریکہ آئے تو شروع شروع میں اردو مَیں اور میاں آپس میں بولتے تھے یا پھر اپنے گھر والوں سے اردو میں بات چیت کر لیتے تھے۔ اس وقت اتنی سی اردو ہمارے لئے بہت تھی۔ جب ہماری اپنی اولاد ہوئی تو یہ اندازہ ہوا کہ اردو اپنے بچوں کو سکھانا کتنا محنت طلب کام ہے، جس کے بارے میں ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔
بہت سے دوستوں کے بچے دیکھے جو اپنے والدین کی مادری زبان بہت کم یا بالکل ہی نہیں بولتے تھے۔ چونکہ میری والدہ اردو کی ٹیچر رہ چکی ہیں، اس لئے مجھے اپنی بیٹی کو اردو سکھانا ایک بہت اہم زمہ داری لگتی تھی۔
دو زبانیں سکھانے کا ذاتی تجربہ
جب میں نے اسے ۱۸ ماہ کی عمر سے ڈے کئیر بھیجنا شروع کیا، تو انہیں یہ لگا کہ وہ بولنے میں باقی بچوں سے پیچھے ہے۔ خانہ پری کرنے کے بعد ایک ماہرِلسانیات کے ساتھ اسکے سیشن ہوئے۔ بار بار یہ ذکر کرنے کے باوجود کہ ہم گھر پہ صرف اردو بولتے ہیں، اسکے سیشن کرنے والی نے آخری روز یہ بات نوٹ کی۔ لہٰذا مجھے شک ہوا کہ اس کا پہلا نتیجہ کس حد تک درست تھا۔ البتہ اس کے نتیجے میں میری بیٹی کو انفرادی توجہ ضرور ملی۔
جب میں نے اپنی چند دوستوں سے اس کے بارے میں بات کی، تو یہ پتہ چلا کہ ان میں اکثر کے بچوں نے جب سکول یا ڈے کئیر جانا شروع کیا توان کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اپنے گھر میں اپنی مادری زبان بولنا چھوڑ دیں کہ کہیں ان کا بچہ دونوں زبانوں کو کنفیوژ نہ کرنا شروع کر دے۔
یہ ہماری پہلی عام غلط فہمی ہے۔
دو زبانیں سیکھنے والے بچے دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں۔
اکثر ان جگہوں پر ، جہاں زیادہ لوگ ایک ہی زبان بولتے ہیں، والدین کو لگتا ہے کہ اگر ان کا بچہ ایک دوسری زبان سیکھنا شروع کرے گا تووہ بولنے میں پیچھے رہ جائے گا۔
اس سلسلے میں جو تحقیق ہے ، اسکے مطابقدو زبانیں بولنے والے بچوں کو ایک زبان بولنے والے بچوں کے مقابلے میں ۲۔۳ ماہ سے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ بچے اگر ایک ہی زبان بولیں، تب بھی یہ ممکن ہے کہ وہ دیر سے بولنا شروع کرتے۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ان کے دیر سے بولنے کی وجہ انکی دو زبانیں بولنا ہے۔ ایک زبان بولنے والے بچوں کے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔
اسی لئے دیر سے بولنے والے بچے چاہے ایک زبان بولتے ہوں یا ایک سے زیادہ، مسئلہ کسی اور وجہ سے عموماً ہوتا ہے ۔ اس لئے انہیں ماہرانہ مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسلئے اگر آپ کے بچے کی بات چیت کا معائنہ کرنے والا اس بات سے لاعلم ہے کہ وہ دو زبانیں سیکھ رہا ہے، تو یہ اسکی صحیح تشخیص یعنی ڈائیگنوسس میں مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔ اگر بچہ اردو کے ۵۰ الفاظ جانتا ہے اور ۵۰ انگلش کے الفاظ جانتا ہے لیکن اسکی زبان کو جانچنے والا صرف انگلش کے الفاظ کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ وہ صرف ۵۰ الفاظ ہی جانتا ہے ، جبکہ وہ اصل میں ۱۰۰ الفاظ جانتا ہے۔
بچہ اپنی دونوں زبانوں کوآپس میں گڈمڈ کرے گا
اس بات سے بہت سے والدین ڈرتے ہیں کہ دو زبانیں سیکھتےہوئے بچہ انہیں آپس میں گڈمڈ کرے گا۔ اس کو عام طور پر ادل بدل کرنا یا کوڈ سوِچ کرنا کہتے ہیں۔ ایسا کرنا زبان سیکھنے کے عمل کا حصہ ہوتا ہے۔ اکثر ۳ یا ۴ سال کی عمر کو پہنچ کر بچے دونوں زبانوں میں فرق کرنا سیکھ جاتے ہیں۔
بلکہ ایسا کرنا زبان میں مہارت رکھنے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے دونوں زبانوں کو بولنے کے صحیح اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
دو لسانی کا نمونہ بننے کے لئے بچے کا دونوں زبانوں میں ماہر ہونا ضروری ہے۔
ہماری خواہش اور کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ بچہ دونوں زبانوں کو روانی سے بول سکے۔ اگر ایسا مکمل طور پر ممکن نہ ہو، تب بھی اسے دو لسان ہی کہیں گے۔ زبان سیکھتے ہوئے اکثر لہجہ اور تلفظ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن بائیلنگوول کہلانے کے لئے بالکل درست تلفظ اور روانی سے بولنا ضروری نہیں۔ بولتے ہوئے ہم جو زبان زیا دہ استعمال کرتے ہیں، اسے ہم غالب یا حاوی زبان کہتے ہیں۔ یہ اکثر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اکثر ہم کام کے دوران انگلش میں اور گھر میں رہتے ہوئے اردو میں بات کرتے ہیں۔
اس طرح زبان میں روانی کا بچے کے ماحول سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے، اکثر گھر میں بچے اپنی مادری زبان روانی سے بولتے ہیں اور جب سکول جانا شروع کرتے ہیں تو باہر بولے جانے والی زبان جلد بولنا سیکھ لیتے ہیں۔
اگر آپ کا بچہ بہت چھوٹی عمر سے دوسری زبان نہیں سیکھے گا تو اس کا لہجہ اور تلفظ ٹھیک نہیں ہو گا۔
یہ سچ ہے کہ جتنی چھوٹی عمر سے دوسری زبان سکھائی جائے، اتنی ہی آسانی سے بچہ روانی سے دوسری زبان بول سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ دس سال کی عمر کے بعد نئی زبان سیکھنے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ اسے حساس وقت یا کریٹیکل پیرئیڈ کا نام دیا جاتا ہے۔
۲۰۱۸ میں ایک اسٹڈی کی گئی جس میں دوسری زبان سیکھنے والوں کی عمر کا تعین کیا گیا۔ اس میں 670,000 ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا جو انگلش سیکھ رہے تھے۔ اس جائزے کے مطابق اگر بچہ اپنی دسویں سالگرہ سے پہلے تک دوسری زبان سیکھ لے، تو اسکا لہجہ اور تلفظ اس دوسری زبان کے بولنے والوں سے قریب ترین ہو گا۔ لیکن دوسری زبان 18 سال کی عمر تک بھی بہ آسانی سیکھی جا سکتی ہے۔
چونکہ اس میں کافی زیادہ لوگوں کو شامل کیا گیا تھا اور اپنی نوئیت کی یہ پہلی اسٹڈی تھی، اس وجہ سے یہ بہت مشہور ہوئی اور اس کی وجہ سے ہمیں حساس وقت کو مزید سمجھنے میں مدد ملی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی بھی یاد رکھیں کہ زبان سیکھنے کے لئے آپکی اپنی لگن اور کوشش کا بھی بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔ آپکی کوشش اور محنت عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ اس اسٹڈی سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا کہ عام طور پہ 18 سال کی عمر بہت اہم سنگِ میل ہوتی ہے، کئی لوگ الگ گھر میں رہنا اور نوکری کرنا شروع کرتے ہیں۔ اس لئے عمر کے اس حصے میں آکر اکثر لوگ نئی زبان سیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ ان کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ اس لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ 18 سال کی عمر کے بعد بھی اور زبانیں باآسانی سیکھی جا سکتی ہیں اور ایسا کرنا آپکی ذہنی صحت کے لئے بہت فائدہ مند بھی ہے۔مزید پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
جن بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، وہ ایک سے زیادہ زبان نہیں سیکھ سکتے
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن بچوں کے سننے اور سمجھنے کی صلاحیت میں مسئلہ ہو، انہیں زبان سیکھنے کے عمل میں دشواری ہوتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا پتہ چلنے کے بعد بروقت علاج کرنے سے ایسی مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ تھوڑی محنت اور علاج کے ذریعے ایسے بچے بھی دونوں زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ ایسے مسئلے کا بروقت پتہ لگ جائے۔
دو زبانیں بولنے والے بچے سکول کی پڑھائی میں پیچھے رہ جا تے ہیں۔
دوسری زبان سیکھنے کا بہترین طریقے کا بچے کی عمر سے تعلق ہوتا ہے۔ اگر بچے کا سکول انگلش میں پڑھا رہا ہے اور اس کے دوست بھی انگلش ہی میں بات کرتے ہیں، تو اس کے لئے انگلش سیکھنا قدرتی طور پہ آسان ہو گا۔ لیکن اگر وہ ذرا عمر میں بڑا ہے، تو اسے اردو (گھر میں بولنے والی زبان ) کے ذریعے انگلش سکھانا زیادہ آسان ہو گا۔
تحقیق کے مطابق ،دو زبانیں بولنے والے بچے اپنے مسئلے خود حل کرنے کی اور مختلف کام بیک وقت کرنے کی صلاحیت بھی بخوبی رکھتے ہیں۔ ان کے سیکھنے کے طریقے میں بھی لچک ہوتی ہے۔ ایسی صلاحیت والے بچے بہت تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہان میں عمر کے ساتھ پیدا ہونے والی ذہنی بیماری الژ ائمر کا رجحان بھی کم ہوتا ہے۔
ذہنی صحت پر مثبت اثرات کے علاوہ، دوسری زبان سیکھنا سماجی اور نفسیاتی طور پر بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔ ایسا کرنا انسان کا اپنی تہزیب اور ثقافت سے ناطہ اور بھی مضبوط کرتا ہے۔
یعنی کہ ۔۔۔
ایک اور زبان سیکھنا آج کل کافی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آج کل جو بیش بہا معلومات آن لائن موجود ہیں، اس کی وجہ سے ایسا کرنا پہلے کے مقابلے میں بہت آسان ہو گیا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ ایسا کرنے سے ہمارے ذہن کو بھی بے شمار فائدے پہنچتے ہیں۔ اپنی مادری زبان اپنی اگلی نسل کو سکھانے کی ہم سب میں قدرتی صلاحیت موجود ہوتی ہے، جس پر ہمیں صرف بھروسہ کرنا سیکھنا ہے۔
میں امید کرتی ہوں کہ یہ معلومات آپ کے لئے مفید ثابت ہوئی ہوں گی۔ ابھی بھی گھر میں اپنی مادری زبان سکھانا کئی دفعہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے چند ایسے طریقے دریافت کئے ہیں جن سے ایسا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر آپ کا بھی ایسی باتوں سے واسطہ پڑا ہو تو ضرور نیچے تبصرہ کیجئے۔ مجھے آپ کے تجربے کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہو گی۔ مزید پوسٹس پڑھنے کے لئے، برائے مہربانی ہماری ای میل لسٹ میں شامل ہونا مت بھولئے گا۔
Read this in: English