Read this in: English
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بچپن میں سیکھی ہوئی نظمیں ہمیں کیوں ازبر ہوتی ہیں؟ سُر اور ہم آواز الفاظ کے استعمال اور لکھنے پڑھنے (خواندگی) کی صلاحیت کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اس صلاحیت کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کے مرحلے کو بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ یہ نہایت اہم معلومات آپ سب تک بھی پہنچائی جائیں۔
آپ سب یقیناً آج کل کے مشہور گانے بے بی شارک سے تو خوب واقف ہوں گے۔ (یہ لکھتے ہوئے میں اپنی چھوٹی بیٹی کے بارے میں سوچ رہی ہوں کہ وہ کیسے لہک لہک کر اسے گاتی ہے)
قافیے اور سُر کا تعلق
زیادہ تر نظموں میں چند باتیں عام ہیں۔ ان میں الفاظ کا بار بار دہرانا، ایک مخصوص ترتیب سے الفاظ استعمال کرنا اور روز مرہ کے الفاظکو بار بار دہرانا شامل ہیں۔ اسکے علاوہ کئی نظموں کو دہراتے ہوئے کئی بار ہاتھوں کو دھن کے مطابق ہلا کر حرکت پر زور دیا جاتا ہے۔ (جیسے کہ اٹسی بٹسی سپائڈر) ۔ اس طرح سے یاد رکھنا بھی آسان ہوتا ہے۔
جب ہم سکول میں تھے تو انگریزی کی نظمیں ہمارے نصاب کا حصہ تھیں اور اردو میں بھی کئی مشہور شاعروں کی نظمیں پڑھائی جاتی تھیں۔ لیکن پڑھنے کا طریقہ زیادہ تر رٹا لگانے پر مشتمل ہوتا تھا اور امتحان کے فوراً بعد سب بھول بھلا جاتا تھا۔
شاعری اور قافیہ
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شعروشاعری کنا انتہائی محنت طلب اور دشوار کام ہے۔ لہٰذا وہی لوگ اس میں پڑتے ہیں جو پیدائشی طور پر اس خوبی کے حامل ہوں یا پھر انہوں نے انتھک محنت کے بعد یہ ہنر حاصل کیا ہو۔
یہ سچ ہے کہ گہری اور پُر سوچ شاعری ہر کسی کے بس کی بات نہیں، لیکن جو ایک حیران کن بات میں نے جانی وہ یہ ہے کہ ہم سب میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے کہہم بولتے ہوئے کس بھی زبان کے اتار چڑھاؤ اور الفاظ کی ترتیب کی آواز کا فرق محسوس کر سکتے ہیں۔
ہر زبان کی اپنی الگ دھن ہوتی ہے۔ اس کی رفتار اور اتار چڑھاؤ میں فرق ہو سکتا ہے لیکن سنتے ہوئے یہ سریلا پن ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔ ( کچھ لوگوں میں یہ خوبی زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔)
زبان کے سُر
ایسی کئی مثالیں ملیں گی جن میں بولنے کے ساتھ ہی آواز کی ترتیب ان کی سادگی کے باوجود بہت نمایاں ہوتی ہے۔ جیسے شیکسپئیر کا فقرہ ” ٹو بی اور ناٹ ٹو بی، دیٹ از دا قوسچن”۔ اس کے متعلق ایک نہایت دلچسپ مضمون کا یہاں پر لنک ڈال رہی ہوں۔
اس خوبی کو صوتیاتی آگاہی (یعنی فونولاجیکل آویئرنس) کہا جا تا ہے۔ یہ خوبی ہر زبان میں لکھے ہوئے الفاظ کی آواز کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
صوتیاتی آگاہی کے ذریعے ہم الفاظ کی آواز بنانے والے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا اور اس سے نئے الفاظ بنانا سیکھتے ہیں۔ اسی طرح بار بار کرنے سے ہم پڑھنا بھی شروع کرتے ہیں۔ یہ خوبی ہم سب میں بچپن سے ہوتی ہے۔
یہ تانا بانا کب بُنتا ہے
جب بچے بچپن میں اپنی ماں کی آواز سنتے ہیں، تو انہیں الفاظ کی آواز کی پہچان ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہان آوازوں کو لکھے ہوئے حروف سے ملانا سیکھتے ہیں۔ اس تمام تر مرحلے میں کافی عرصہ لگتا ہے اور عموماً ہم شعوری طور پر اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔
زبان سیکھنے کے مراحل بچے پہلے تین سال میں بخوبی طے کر لیتے ہیں۔ اس طرح وہ آواز سن کر اس کی نقل کرنا اور بار بار دہرا کر اس عمل میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔
جینئیائی طور پر بچہقریباً ۴۰ مختلف آوازوں میں پیدائشی طور پر فرق کر سکتا ہے۔ اس اہلیت کی بنا پر وہ جینئیاتی طور پر کسی مخصوص زبان (جیسے کہ اردو، عربی یا انگلش) بولنے کا حامل نہیں ہوتا۔ اس خصوصی قابلیت کے لئے آواز کو درست ترتیب کے مطابق استعمال کر کے ہم الفاظ کا مطلب سیکھتے ہیں۔
ہم آواز الفاظ کے استعمال سے نئی زبان کیسے سیکھی جائے؟
ہم سب اس بات سے خوب واقف ہیں کہ بچے چھوٹی سی عمر سے ہی کیسے اپنے والدین کے بولنے کی نقل اتار نے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اکثر انکے کھلونے فون اسئ کام آتے ہیں۔ یہ دراصل انکے بولنے کی مشق کا حصہ ہوتا ہے۔
دہرانے کی اہمیت
زبان سیکھنے کے لیئےبار بار دہرانااور کوشش کرتے رہنا انتہائی ضروری ہے۔ بار بار دہرانے سے اور بولنے کی کوشش کرنے سے ہی بچے الفاظ کا درست استعمال اور ان کا مطلب سیکھتے ہیں۔ یہ سیکھنے کے لئے زندگی کےپہلے چھے سال بہت اہم ہوتے ہیں۔
اس دوران اگر بچے سے زیادہ باتیں نہ کی جائیں، یا اس کے ساتھ نظمیں سننے اور گنگنانے کے عمل کو اہمیت نہ دی جائے، تو اس سے اسکی زبان کو سیکھنے اور سمجھنے کی اہلیت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اگ ر وہ سن نہیں سکیں گے تو وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں سکیں گے۔
قافیہ ملائیں
ہم سب کو بچپن کے کھیل جیسے کہ اَکڑبَکڑ بمبے بو اور چھم چھم چھم اچھی طرح یاد ہیں۔ یہ کھیل کھیلتے ہوئے اکثردُھن کے مطابق تالی بجانا یا ہاتھوں کو حرکت دینا کھیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس طرح سے بولے جانے والے الفاظ کو حرکت سے ملانے کی مشق ہوتی تھی۔ اس لئے ذہن اور جسم کی ہم آہنگی درست طریقے سے کھیلنے کے لئے بہت ضروری تھی۔ الفاظ کی ترتیب اوراسکے مطابق کھیلنا اس کا ایک اہم جزو ہے۔
ترتیب سیکھنے کے لئے بار بار کوشش کرنا ضروری ہے
نظموں میں ترتیب سے الفاظ بار بار دہرانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بار بار اس کو دہرانے سے بچوں کے دماغ میں خود سے ہم آوازالفاظ پہچاننے اور بنانے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔ جوں جوں وہ بڑے ہوتے ہیں، اس طرح انہیں ڈی۔کوڈکرنے میں مدد ملتی ہے۔
ڈی۔کوڈ کرنے کا مطلب ہے کہ الفاظ میں حروف کی الگ الگ آوازوں کو پہچاننا۔ جیسے کہ کے ۔ جی کے بچے لفظ تارا کو ڈی۔کوڈ کرتے ہوئے حروف کی آواز، ت؍ ا؍ ر؍ ا کو الگ الگ پہچاننا سیکھتے ہیں اور اگر پہلا حرف ت کی بجائے س کر دیا جائے تو ایک نیا لفظ سارا کیسے بنا سکتے ہیں، اس عمل کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سوس کا سراغ
بچوں کی مشہور کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سوس کے بارے میں اس لحاظ سے اس آرٹیکل میں یہ دیکھا گیا کہ وہ دماغ پرکیا اثر چھوڑتا ہے۔ ڈاکٹر سوس کی کتابیں اس لحاظ سے منفرد ہوتی ہیں کہ ان میں ہم آواز الفاظ کئی بار من گھڑت ہوتے ہیں اور بڑوں کے لئے یہ کافی عجیب چیز ہوتی ہے لیکن بچوں میں یہ کتابیں بیحد مقبول ہیں۔ اس میں ایک سٹڈی کے بارے میں بتایا گیا ہے جس میں ۱۹۸۰ میں بچوں کو ڈاکٹر سوس کی ایک مشہور کتاب “دا کیٹ ان دا ہیٹ”کی ریکارڈنگ سنائی گئی، یہ دیکھنے کے لئے کہ اسے سننے کے بعد ان کو چپ کرانے میں مدد ملتی ہے کہ نہیں، اور نتیجہ جان کر آپ یقیناً محظوظ ہوں گے۔
اس کے علاوہ اس بارے میں بھی کافی تحقیق موجود ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اس ہم آوازی کے عمل سے دماغ کے جو حصے یادداشت، توجہ بڑہانے اور زبان سیکھنے کے لئے اہم ہیں، ان میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور وہ بہتر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے پڑھنے اور حساب سیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور بچے جلد بازی کی بجائے زیادہ دھیان سے کام کرنا سیکھتے ہیں۔( یہآٹزم سے متاثر بچوں میں دیکھا گیا ہے جنہیں دھیان سے کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے(
اس طرح کی اور بھی بہت سی معلومات ہیں جو قافیے اور ہمارے وجود کے درمیان تعلق کو اور بھی پختہ کرتی ہیں۔ اس لئے ایک اور آرٹیکل کا لنک یہاں پر ڈال رہی ہوںاگر آپ اس بارے میں مزید پڑھنا چاہتے ہیں۔
دوزبان والدین کے لئے مفید مشورے
یہ تمام معلومات میرے لئے بچوں کو اردو سکھانے میں بہت کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔
میری دو سالہ بیٹی پورے جوش وخروش سے آلو کچالو میاں کہاں گئے تھے ؟ لہک لہک کر گاتی ہے۔
ان باتوں پر عمل کرنے کے لئے کچھ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو صرف چند سیدھی سادی نظموں کا ذخیرہ چاہیئے اور انہیں بار بار دہرانے کی ہمت۔ ساتھ ہی ساتھ اگر آپ ہاتھوں کی حرکت بھی اس کھیل میں شامل کر لیں، تو وہ اور آسانی سے یاد رکھ سکتے ہیں۔
حروف سکھانے سے پہلےبچوں کے ساتھ نظمیں سیکھیں اور بار بار دہرائیں۔
ساتھ ساتھ دھن کے مطابق آپ تالی بجا سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہوہ خود سے ملتی جلتی آواز والے الفاظ بنائیں۔
جیسے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہچائے سے ملتا جلتا لفظبتائیں؟ (لائے، ہائے، پائے)
وہ اتنی جلدی یہ سیکھ لیں گے کہ آپ یقیناً جان کر(خوشگوار طور پر) حیران ہوں گے۔
دماغ کی بتی جلائیں
جیسے ان کی عادت بنتی جائے، آپ ان سے کہیں کہ وہ خود سے چھوٹے موٹے ہم آواز الفاظ بنائیں اوران سے جملے بنانے کی کوشش کریں۔ اگر ساتھ گنگننا چاہیں تو اور بھی اچھی بات ہے۔ یہ سب ایک کھیل کی طرح سکھائیں اور خود بھی مزے لیں۔
دھیرے بولو
میں نے ذاتی طور پر دھیرے بولو نامی چینل کو پٹاری پہ آزمایا ہے۔ اس پر آسان اردو میں بہت سی نئی نظمیں ہیں جیسے کہ الٹا سیدھا، ہفتے کے دن وغیرہ۔
میں اپنیبنائی ہوئی لسٹ کا لنک یہاں پرڈال رہی ہوں، تاکہ آپ کلک کر کے خود سن سکیں۔ یہ نظمیں اساتذہ نے لکھی ہیں اور مجھے گاڑی میں بچوں کے لئے لگانا بیحد پسند ہیں۔
چند مشہورِزمانہ نظمیں۔
ایک اور چینل جو اردو کی نظمیں بنا رہا ہے، اس کا نام ہے MUSE اس چینل پر چھوٹی چھوٹی نظموں کے علاوہ حروف کے بارے میں بھی چھوٹی چھوٹی ویڈیوز موجود ہیں۔
آلو میاں آلو میاں کہاں گئے تھے
اسکے علاوہ میں مزید دو نظمیں بھی اس ویب سائٹ کی لائبریری میں شامل کر رہی ہوں۔ آپ انہیں باآسانی پرنٹ کر سکتے ہیں۔ موجیں کریں!
میں آپکو اپنے تجربے سے بتا سکتی ہوں کہ نظمیں زبان سیکھنے کا انتہائی دلچسپ اور مزیدار طریقہ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے بے شمار فائدے ہیں۔
مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ نیچے دئے گئے بٹن کے ذریعے اور دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں اور ہمیں انسٹاگرام پر ٹیگ کرنا مت بھولیں۔
Read this in: English
بہت خوب!!
شکریہ
زبردست
ماشااللہ