دو زبانیں بولنے والے والدین کے سروے کے نتائج : پڑھئے اور جانئے

Read this in: English

کچھ روز سے اردو کے بارے میں کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہماری پہچان کا حصہ ہے۔ مادری زبان اور ہماری انفرادی پہچان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اپنے بلاگ کو جب میں نے شروع کیا تھا تو میں نے اپنے ارد گرد دو زبانیں بولنے والے والدین سے انکے کیالات کے بارے میں جاننے کے لئے ایک سروے کیا تھا۔ ان میں سے ایک جواب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میرے خیال میں ابھی اس کے بارے میں زیادہ تفصیل سے بات کرنا مناسب رہے گا۔

یہ سردے میں نے اپنے تجسس کی وجا سے کیا تھا اور جتنے لوگوں نے اس میں حصہ لیا، میں ان ۱۰۱ لوگوں کی بہت مشکور ہوں۔ اسے کرنے کا خیال بھی قدرتی تجسس پر مبنی تھا۔ ساتھ ہی حقائق کو سمجھنے کا بھی شوق تھا۔

چنانچہ اس سردے کے ذریعے مجھے بہت سے لوگوں کے تاثرات سننے کو ملے جو دو زبانیں بولتے ہیں لیکنایسی جگہ رہتے ہیں جہاں انکی مادری زبان نہیں بولی جاتی۔ مثلاً اگر وہ گھر پر اردو بولتے ہیں تو گھر سے باہر انگلش بولی جاتی ہے۔

میں ان نتایج کو تصدیری شکل میں بیان کروں گی اور پھر اپنے تاثرات بیان کروں گی۔

۱۔ بولے جانے والی زبانوں کی تعداد

حصہ لینے والوں کی بولے جانے والی زبانوں کی تعداد

میرے اس گروہ میں کم ہی لوگ تھے . مگر زیادہ تر لوگ تین زبانیں جانتے تھے۔ میرا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔

اس کے بارے میں میں تفصیل سے ایک پوسٹ لکھ چکی ہوں، پڑھنے کے لئےیہاں پر کلک کریں۔

کون کون سی زبانیں آپ بولتے ہیں۔

حصہ لینے والوں کی زبانیں

میں جتنی زبانیں ڈال سکتی تھی میں نے ڈال دیں۔

چونکہ میرے جاننے والے لوگوں کا سروے تھا، اسی لئےاردو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان تھی۔ ( ۵۴ فیصد) اس کے بعد سپینش (۳۱ فیصد) اور پھر پنجابی (۲۶ فیصد ) تھی۔ اس کے آگے فرنچ اور ہندی بولنے والوں کا تناسب ۷۔۷ فیصد تھا۔

۳۔ بچوں کو زبان سکھانے کی کوشش

بچوں کو دوسری زبان سکھانے کی کوشش کرنے کا سوال

زیادہ تر لوگوں نےاپنے بچوں کو دوسری زبان سکھانے کی کوشش کی ۔

۴۔ دوسری زبان سکھانے کے لئے کونسے طریقے استعمال کئے گئے

زبان سکھانے کے طریقے

اس کے بہت دلچسپ جواب تھے۔

بیشتر لوگ ( ۸۲ فیصد) کو گھر میں بات چیت کے ذریعے زبان سکھانا آسان لگا۔

اسکے بعد ۶۰ فیصد کو کتابیں اور اس کے بعد قریباً ۴۱ فیصد کو ویڈیوز فائدہ مند لگیں۔

بالخصوص زبان سکھانے والی ایپس اور ٹیوٹر جو کہ گھر سے باہر تھے، مجموعی طور پر صرف ۲۵ فیصد جوابات میں فائدہ مند ثابت ہوئے۔

یہ بالکل آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

زبان سیکھنے کا موازنہ ورزش کرنے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

زبان سیکھنے کا مطلب ہے کہ آپ بار بار اسے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔

ہم ایک لفظ استعمال کرتے ہیں جسے طب میں کہا جاتا ہے بیکاری کا سکڑنا۔ یعنی جب آپ ایک پٹھے کو استعمال نہیں کرتے تو وہ سکڑتا جاتا ہے۔ یہ لقوے کے مریضوں میں دیکھا جا سکت ہے جو بیماری کی وجہ سے اپنے مٹھوں کو حرکت میں نہیں لا سکتے اور آہستہ آہستہ ان کے پٹھے بالکل سکڑ جاتے ہیں۔

اس کا موازنہ میں ایپس اور کمپیوٹر کلاسوں سے کروں گی۔ زبان سیکھنے کے لئے چھوٹی چھوٹی کلاسوں میں چند منٹوں کے دوران سیکھنا بہت مشکل ہے۔ اس طرح بار بار دہرانے کا عمل ٹھیک سے نہیں ہو سکتا۔ جب تک بار بار ہم ذہن کے زبان والے حصے کو استعمال نہیں کریں گے، وہ مضبوط نہیں ہو گا اور ہمیں فوراً سب بھلنا آسان ہو گا۔ بالکل پٹھے سکڑنے کی طرح!

ساتھ بیٹھ کر کتاب پڑھنا بھی اسی وجہ سے ضروری ہے۔ آپ بچوں کے ذہن کو اس طرح استعمال کرنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ اس طرح جتنی بار آپ ان کے لئے وہ نئی زبان دہرائیں گے، ان کی یادداشت اور بھی تیز ہو گی۔

۵۔ زبان سکھانے کا بہترین طریقہ

سب سے کامیاب زبان سکھانے کا طریقہ

میں نے یہ فرضی سوال کیا تاکہ سب کی رائے جان سکوں۔

زیادہ تر لوگوں نے (۶۸ فیصد) کہا کہ ان کے خیال میں زبان جس ملک میں بولی جاتی ہے وہاں پر وقت گزارنا زبان سیکھنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔

اسے ہم زبان میں غرق ہونا کہتے ہیں اور یہ واقعی دوسری زبان سیکھنے کا ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔

اس کا مشاہدہ اسسٹڈی میں کیا گیا۔ اس میں ایک مصنوعی زبان سکھانے کے لئے اس میں غرق ہونے یعنی اس میں کھو جانے کے بارے میں تحقیق کی گئی۔ اس کے بعد، مزید پانچ ماہ گزر گئے اور دوبارہ سے دیکھا گیا کہ انہیں کتی اور کس حد تک زبان یاد ہے۔

اس دوران ان لوگوں میں سے کسی کا بھی پالا اس زبان سے عام زندگی میں نہیں پڑا تھا۔ اس کے باوجود، جن لوگوں کو اس زبان میں غرق ہونے کے تجربے سے گزارا گیا تھا، ان کو زیادہ حد تک صحیح جوابات یاد تھے۔

یعنی ان کا ذہن اس مصنوعی زبان کو زیادہ لمبے عرصے تک یاد رکھ سکا تھا۔ یہ مجھے بہت دلچسپ بات لگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ زبان کو اس کے قدرتی ماحول میں سیکھیں تو آپ اسے زیادہ عرصے تک یاد رکھ سکتے ہیں۔

زبان سیکھنے میں کتنا وقت لگے گا، یہ بھی ایک الگ سوال ہے۔

میرے بالگ پر ایک مہمان نے ایک پوسٹ لکھی تھی جس میں دو زبانیں جنتے ہوئے تیسری زبان کو سیکھنے میں کتنا وقت لگتا ہے اس کے بارے میں بات کی تھی۔

عام طور پر اس کا تعلق اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آپ کیسی زبان سیکھنا چاہ رہے ہیں۔

اب ذرا اس تصویر ک جائزہ بھی لیجئے جس میں انگریزی بولنے والوں کو ایک نئی زبان سیکھنے میں کتنا وقت لگے گا، اس کے بارے میں تفصیل سے اعدادوشمار بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے ذرائع یہاں موجود ہیں۔

میں اس میں اردو کی مثال لوں گی۔

مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ عربی ، جی وہی زبان جسے ہم بچوں کو قرآن پڑھانے کی نیت سے اپنے بچوں کو سکھانا ضروری سمجھتے ہیں،اسے پانچویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ اردو کو اس سے آسان چوتھے درجے پر بتایا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ انگلش بولنے والوں کو اردو سیکھنے میں ۴۴ ہفتے لگیں گے اور عربی بولنے میں ۸۸ ہفتے لگیں گے۔

یعنی عربی کے مقابلے میں اردو سیکھنے میں آدھا وقت لگے گا۔ اس لحاظ سے، ہمیں اپنے بچوں کو اردو سکھانے میں عام سوچ کے برعکس کافی آسانی ہو گی۔

زبان سیکھنے میں عمر کی حد

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میرے حلقے میں ۴۶ فیصد لوگوں نے اعتراف کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ زبان سیکھنے کی عمر کی کیا حد ہے؟ لیکن قریباً ۲۲ فیصد لوگوں کے خیال کے مطابق چھے سال کی عمر کے بعد یہ موقع ختم ہو جاتا ہے۔ سب سے کم تعداد ان لوگوں کی تھی جنہیں اٹھارہ سال کی عمر تک اس بات کا شبہ تھا کہ وہ نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔

میں نے اس سوال کے مطعلق ایک پوسٹ بہت تفصیل سے لکھی ہےجسے میں یہاں لنک کر رہی ہوں۔ اس میں دو زابانیں سیکھنے کر بارے میں اور بھی کئی غلط فہمیں کا ذکر ہے۔

زبان کو سیکھتے ہوئے دو چیزیں ہو تی ہیں۔ایک ہوتی ہے کہ آپ اس کے الفاظ تو جانتے ہیں لیکن لب ولہجہ مقامی لوگوں کے مقابلے میں مختلف ہو۔ دوسا یہ کہ آپ بالکل مقامی لوگوں کے لب و لہجہ کی طرح بات کر سکیں۔

اس طرح کا لبو لہجہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا تعارف اس زبان سے چھوٹی سے چھوٹی عمر میں ہو جائے۔ (وس سال سے پہلے ہو تو بہت اچھا ہے) لیکن سچ تو یہ ہے کہ زبان سیکھنے کی کوئی عمر کی حد نہیں ہے۔

اب میں اس رائے کے بارے میں بات کرنا چاہوں گی جس میں میرے کئی خدشات کی گونج ہے۔

میں یہاں پر حرف بہ حرف اسے شائع کر رہی ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ یہ کس نے لکھا لیکن اس جواب میں ہمارے کئی ایسے وسوسے موجود ہیں جو میں یہاں پر بیان کنا چاہتی ہوں۔

مجھے لگتا ہے کہ اردو جیسی زبان سکھانا ، جو کہ میری مادری زبان ہے، بالکل ضروری نہیں، اگر ہم ملک سے باہر رہتے ہیں، کیونکہ وہ اس زبان سے ویسا تعلق کبھی نہیں بنا سکیں گے جیسا کہ ہمارا اپنا ہے۔ وہ اسے کبھی روز مرہ کی زندگی میں استعمال نہیں کریں گے اور نہ ہی انہیں اسکی موروثی حیثیت کے بارے میں جاننے میں کوئی دلچسپی ہو گی۔ صرف ایک فائدہ ہے کہ انہیں اپنے ننہیال ددھیال کے ساتھ باتیں کرنے میں آسانی ہو گی، جنہں انگلش نہیں آتی، جو کہ ایک فائدہ مند چیز ہے۔ اگر میں انہیں اردو سکھا بھی دوں ، تو وہ انکی نسل کے ساتھ ختم ہو جائے گی اور وہ کبھی بھی اپنے بچوں تک اس زبان کو نہیں پہنچائیں گے۔ میں انہیں دوسری زبان سکھانے کے حق میں ہوں لیکن ضروری نہیں کہ وہ میری مادری زبان ہو۔

۔ سردے کا جوب

میں یہ جاننا چاہوں گی کہ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔

ذاتی تجربے کہ بنا پر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اپنی مادری زبان جانتے ہوئے اور بولتے ہوئے ہم سب کے پاس یہ زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہم خود اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان سکھانے کا سب سے اہم حصہ ہیں۔

میرا یہ کوشش کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر وہ اسے سیکھیں گے، تو اس زبان میں ادب کوآگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح شائد ہماری زبان آگے ترقی کر سکے۔

یہ سب کرنا یقیناً آسان نہیں ہو گا۔ لیکن میں نے یہ کوشش کی ہے اور یقین سے آپ کو بتا سکتی ہوں کہ یہ اتنا مشکل نہیں ہے۔

اپنا تجربہ ضرور بتائیے گا اور پوسٹ کو آگے شئیر کرنا مت بھولئے گا۔

Read this in: English

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے